8

ہسپتال میں انسنریٹر کی موجودگی کے باوجود پمز کے سرجیکل و دیگر میڈیکل ویسٹ کی راولپنڈی منتقلی جاری
پمز میں موجود مخصوص مافیاء نے سال2006سے 2019تک پمز میں انسٹریٹر ہی نہ لگنے دیا،کورٹ آرڈر کے بعد انسٹریٹر لگے
پمز کے سرجیکل ویسٹ کا ٹھیکہ ہر ماہ کروڑوں روپے میں کیا جاتا ہے وہیں پمز کے ا نسریٹر کو جان بوجھ کر بند رکھا جاتاہے،انکشاف

اسلام آباد (محمد جواد بھوجیہ) جہاں ایک طرف دو سال قبل کروڑ ں روپے کی لاگت سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں سرجیکل ویسٹ کو جلانے کے لیے انسنریٹر مہیا کیے گئے تاہم پمز میں گزشتہ کئی دہائیوں سے موجود ایک طاقتور مافیائئ جوبڑے عرصہ سے سرجیکل ویسٹ کے اس گھناونے سکینڈل کا مرکزی کردار ہے اس نے ہسپتال میں موجود انسنریٹر کو کبھی بھی مکمل چلنے نہیں دیا،ہسپتال میں موجود انسنریٹر کو بیشتر وقت بند رکھا جاتاہے اور ظاہر یہی کیا جاتا ہے کہ ہسپتال کا ویسٹ جلایا جاتا ہے تاہم زرائع نے خوفناک انکشاف کیا ہے کہ یہ سرجیکل ویسٹ رات کے پچھلے پہر چھوٹی ٹرالیوں میں ہسپتال سے باہر لے جایا جاتا ہے بعض مرتبہ ہسپتال کی ٹرالی ٹریکٹر بھی اس گھناونے اور مکروہ دھندہ میں استعمال ہوتا ہے۔زرائع نے مزید بتایا کہ انسنریٹر کے میٹر بھی آگے ظاہر کیے جاتے ہیں تاکہ جہاں ایک طرف سرجیکل ویسٹ کو جلانا ظاہر کیا جاتا ہے وہیں بڑی مقدار میں ڈیزل کا استعمال بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔ہسپتال انتظامیہ کے اعلی عہدے داران یا تو براہ راست اس دھندے کا حصہ ہیں یا مافیائکے آلا کار اتنے مضبوط ہیں کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ڈپٹی ایگزیکٹیو دونوں کے علم میں یہ سکینڈل کئی بار علم میں لایا گیا تاہم ان دونوں کی طرف سے اس اہم ترین سکینڈل پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔زرائع کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے چرایا گیا یہ سرجیکل ویسٹ راولپنڈی کے علاقہ مورگاہ میں بیچ دیا جاتا ہے جہاں سے ہر ماہ کروڑوں روپے پمز کے حکام وصول کرتے ہیں۔حال ہی میں راولپنڈی کے کئی ہسپتالوں سے سرجیکل ویسٹ کی ایک مخصوس جگہ پر بھیجنے کا بڑا سکینڈل سامنے آیا تھا اگر تحقیقات کی جائیں تو پمز کا یہ سکینڈل بھی اس سکینڈل سے کسی بھی طرح مختلف نہ ہوگا۔پمز 1100بیڈز کا ہسپتال ہے جہاں سے روزانہ3000کلو گرام سرجیکل ویسٹ نکلتا ہے،اس میں سے 1800کلو گرام کے قریب ویسٹ انتہائی خطر ناک ہوتا ہے جس کو انسٹریٹر میں تلف کرنا لازم ہوتا ہے تاہم انسٹریٹر ہونے کے باوجود یہ ویسٹ پمز میں گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے جلایا نہیں جارہا اور اس ویسٹ کو زرائع کے مطابق بعض مرتبہ ری سائیکل بھی کیا جاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔پمز میں موجود اس مافیاء نے سال2006سے2019تک ہسپتال میں انسٹریٹر لگنے ہی نہیں دیا اور دونوں ہاتھوں سے اس خطرناک کھیل میں مال بناتے رہے،جہاں ایک طرف یہ ویسٹ غیر قانونی طریقہ سے بیچا گیا وہیں مال بنانے کے لیے سرکاری دستاویزات میں یہ بتایا جاتا رہا کہ فی کلو گرام ہسپتال80روپے کنٹریکٹر کو فراہم کرے گا جو اس سرجیکل ویسٹ کو جلائے گا اس پورے عمل میں ہرسال کروڑوں روپے کھائے گئے،زرائع نے ایک اور انکشاف بھی کیا ہے کہ پمز ہسپتال میں سرجیکل ویسٹ کو وارڈ میں کٹ کرنے کے لیے لگائے گئے آلات جن پر لاکھوں روپے لاگت آئی تھی اس کو ایک ماہ میں ہی غائب کردیا گیا تاکہ اس ویسٹ کو ری سائیکل کیا جاسکے کیونکہ پمز سے انفیکشن کی نسبت مریضو ں میں بہت زیادہ ہے وہیں ہسپتال کو سپلائی فراہم کرنے والے بیشتر کنٹریکٹر کا بھی کھرا انہی سپلائرز تک جاتا ہے جو اس سرجیکل آئیٹمز کو فراہم کررہے ہیں۔اس ضمن میں یاد رہے کہ پمز میں عدالتی حکم کے بعد سال2019میں انسٹریٹر لگائے گئے تھے جو اگر پوری صلاحیت سے چلیں تو روزانہ کی بنیاد پر تمام ویسٹ کو باآسانی تلف کر سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں