9

بین الاقوامی عدالت انصاف۔۔۔۔توقعات

بین الاقوامی عدالت انصاف۔۔۔۔توقعات
عدالت کے سامنے سوال ہے کہ ایک جاسوس کو قونصلر رسائی کا حق تھا یا نہیں اس پر صرف فیصلہ ہونا باقی ہے
تین مسلمان ایک چینی جج کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے خلاف فیصلہ آیا تو وہ بھی پاکستانی جیت ہوگی
بھارت کی درخواست ہے کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی اور کیسں سول،کورٹ میں بھجوایا جاے بھی پاکستانی فتح ہے
1947میں برطانیہ نے البانیہ کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں رجوع کیا تھا جب اقوام متحدہ کے رکن۔ممالک کی تعداد 51تھی اب جبکہ 2018میں رکن ممالک کی تعداد 193تک پہنچ چکی ہے تو بین الاقوامی عدالت انصاف میں اس وقت بھی سترہ کیس ہیں جن کی سماعت اجکل ہو ری ہے جس میں سے دسویں نمبر پر پاکستان اور بھارت کا کیس جو پاکستانی عدالت سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے متعلق ہے ۔بھارت کی درخواست پر جو فائنل رائونڈ ہوا جس میں 18فروری کو بھارتی وکیل نے تین گھنٹے اپنے دلائل دیئے جبکہ 19فروری کو پاکستانی وکیل خاور قریشی نے تین گھنٹے دلائل دیئے۔20 فروری کو پھر بھارتی وکیل نے جواب دیا جو نوے منٹ پر محیط تھا جبکہ21 فروری کو پاکستانی وکیل نے جواب الجواب دیا جس کے بعد فیصلے کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور اب یہ فیصلہ ماہ جون کے شروع میں سنایا جائے گا ۔۔عالمی عدالت انصاف میں پندرہ مستقل ججز ہوتے جن کو اقوام متحدہ نو سال کے لیے نامزد کرتی ہے

اس وقت دیکھا جاے تو جو پندرہ ججز ہیں ان میں سے ایک صدر بھی ہوتا ہے اس ۔مرتبہ صدر عبدا لقوی احمد یوسف کا تعلق صومالیہ ہے جو چھ فروری کو منتخب ہوئے دوسری مرتبہ انہیں چھ فروری 2018کو۔منتخب کیا گیا وہ دو ہزار پندرہ سے اس عدالت میں نائب صدر بھی تھے اسوقت عالمی عدالت انصاف میں نائب صدر کی سیٹ چین کے پاس ہے اور چینی جج ،xue.hanqinانتیس جون دو ہزار دس میں منتخب اور دو ہزار بارہ میں انہیں دوبارہ منتخب کیا گیا اور چھ فروری سے وہ اس عدالت کے نائب صدر کے عہدے پر ہیں۔۔

۔تیسرے جج ہیٹر تومکا سلوواکیا سے ہیں جو 2003میں پہلی مرتبہ منتخب ہوئے 2012میں وہ دوبارہ منتخب ہوئے اور 2009سے 2012تک وہ کورٹ کے نائب صدر جبکہ 2012سے دو ہزار پندرہ تک وہ اس عدالت کے صدر بھی ریے۔۔جج رونی ابراہم کا تعلق فرانس سے ہے 2005میں پہلی مرتبہ منتخب ہوئے دوسری مرتبہ 2009میں جج بنے 2015سے 2018رک وہ عدالت کے صدر بھی رہے۔۔جج محمد بیناونا کا تعلق مراکو سے ہے جو 2096میں پہلی مرتبہ منتخب ہوئے جبکہ دوسری مرتبہ 2015میں جج منتخب ہوئے۔۔۔جج انتونیو اگسٹو کنکیڈو ٹرنڈاد کا تعلق برازیل سیںیے جو ڈوہزار نو میں پہلی مرتبہ جبکہ دو ہزار اٹھارہ میں دوسری مرتبہ منتخب ہوئے۔۔۔جج جورجیو جنس کا تعلق اٹلی سے ہے جو 2012 میں اس ۔معزز عدالت کے ممبر بنے۔۔۔

خاتون جج جولیا صابوتندا کا تعلق یوگنڈا ایںییںجو 2012سے جج چکی آ رہی ہیں۔۔بھارتی جج دلویر بھنڈاری 2012میں پہلی مرتبہ جبکہ 2018میں دوسری مرتبہ جج بنے ہیں۔۔۔جج ہیٹرک لپٹن رابنسن کا تعلق جمیکا سے ہے جو دو ہزار پندرہ میں منتخب ہوئے۔۔جج جیمس رچرڈز کرافورڈ کا تعلق آسٹریلیا سے ہے وہ بھی دو ہزار پندرہ سے جج ییں۔۔۔جج کیرل جاورجین کا تعلق رشین فیڈریشن سیںیے جو بھی 2015 سے جج ہیں۔۔لبنان سے نواف سلام معزز جج ہیں جو 2018میں جج بنے ہیں جن یوجی لواسوا کا تعلق جاپان سے ہے جو بایس جون 2018میں جج منتخب ہوئے جبکہ بیلجیم سے تعلق رکھنے والے جج فلپ کوریر 2010میں پہلی مرتبہ جبکہ 2007میں پہلی مرتبہ جبکہ 2014میں وہ تیسری مرتبہ جج منتخب ہوئے ہیں اس معزز عالمی عدالت انصاف کے۔۔۔ویسے تو توقع ہے کہ عالمی عدالت انصاف میرٹ پر پاکستان کے حق میں فیصلہ دے گی اور جس طرح کے پاکستان نے دلائل دیئے ہیں عالمی عدالت انصاف کیکلبوشن یادیو کو حسین مبارک پٹیل کے نام۔سے پاسپورٹ بنوانے کے اور پھر پاکستان میں جاسوسی کرنے کا۔الزام۔میں اسے جاسوس قرار دے کر پاکستانی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھے گی کیونکہ اب کیس یہ نہیں ہے کہ وہ جاسوس تھا یا نہیں بلکہ کیسں حقیقی یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی کا حق تھا یا نہیں کیونکہ بھارت ویانا کنونشن کی شق پینتیس کی بات کرتا ہے

جبکہ پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کی بات کرتا ہے کہ اگر ایسا کوء معاملہ ہوا تو قونصلر رسائی پر کیس ٹو کیس فیصلہ کیا جاے گا اس لئے پاکستان نے قونصلر رسائی نہیں دی کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان طے ہو چکا ہے کہ اس پر ہر ملک کو حق ہے کہ وہ ہر کیس کو دیکھ کر فیصلہ کرے بھارت کہتا ییںکہنوہ۔معاہدہ صرف عام قیدیوں یا مچھیروں کے متعلق تھا تو سوال اٹھتا ییکہ پھر کیس میں سیاسی اور ایسے کیسوں کے حوالے یہ شق بھارت نے شامل کی تھی پھر بھی اگر بہت زیادہ رعایت بھی دی گیی تو کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی کی اجازت دی جاے گی اور باقی ماندہ اپیلوں میں جہاں ہای کورٹ اور سپریم کورٹ شامل ہیں وہاں ہر قونصلر رسائی دی جائے گی اور اگر بھارت کو بہت زیادہ چمک فیصلہ ملا جو اس کی درخواست ہے کہ اس کیس کو دوبارہ سوک۔کورٹ میں بھجوایا جاے تو ایسی صورت میں بھی پاکستان کی بہت بڑی جیت ہوگی۔۔۔۔کیونکہ ہر دو صورت میں کلبھوشن کو سزائے موت سے کوء نہیں روک سکتا کلبھوشن کی موت بھارت کی سیاسی موت یے۔۔اور اجکل فتح و شکست کا پیمانہ سفارتی و سیاسی ہی ہوتا یے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں