Beginning of the End
آج ایم کیو ایم نے کل ق لیگ نے طبل جنگ بجانا ہے پھر تحریک عدم اعتماد کی اطلاعات
کپتان کا سابق کی بجاے موجودہ وزیر اعظم ہونے کے ناطے تاریخی خطاب متوقع
کہتے ہیں ایک سرکس میں شیر بیٹھا ہوتا ہے ایک خوبصورت دوشیزہ آتی ہے وہ شیر کے منہ کے سامنے اپنی گال کرتی ہے شیر اس گال پرع بوسہ دیتا ہے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے ایسے میں ایک سادہ شخص کھڑا ہوتا مجمع سے مخاطب ہوتا ہے کہ اس میں اتنی تالیاں بجانے کی کیا بات ہے یہ کام تو میں بھی کر سکتا ہوں جب مجمع نے پوچھا کونسا کام اس نے کہا کہ جو شیر نے کیا ہے ۔۔کسی نے نہیں پوچھا کہ اس دوشیزہ جیسی جرات کا مظاہرہ کر کے دکھاوجو شیر کے منہ کے آگے گال کرنے کا ہے ۔۔۔۔۔
23اکتوبر کی رات جب اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ایک نئی یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب میں پاکستان کے حیات چار میں تین سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی ، سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف موجود تھے تو انہوں نے دو سابق وزرائے اعظم کا نام لیا اور میاں نواز شریف کا نام لئے بغیر کہا کہ ایک سابق وزیر اعظم کم ہے تو ہال میں ایک ہلکا سے قہقہہ لگا
اس سے قبل جب سید یوسف رضا گیلانی نے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ خرگوشیوں میں کہا کہ آپ کو میں نے مشورہ دیا تھا کہ جمہوری طور پر بہترین طریقہ یہی تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آتے لیکن آپ لوگوں نے میری بات نہیں سنی تھی اب وہ کپتان سے مستعفی ہونے کے کہہ رہے ہیں جس پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بات تو آپ کی ٹھیک تھی جب پر سید یوسف رضا گیلانی نے جملہ کسا کہ This is the bebinning of the end لیکن شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا نہیں This is the Endاس پر ایک صحافت کے کم عمر طالب علم ہونے کے ناطے بہت بڑی حیرانگی اسوقت ہوئی کہ جب سابق دونوں وزرائے اعظم جو خود کو جمہوری کہلواتے تھکتے نہیں کیسے خوش ہو رہے تھے جن کو ایک وقت میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا وہ کس قدر خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے کہ ایک اور جمہوری وزیر اعظم کو حد ادب گستاخی کی پاداش میں گھر بجھواے جانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور وہ خوشیاں منا رہے ہیں حالانکہ ہونا تو یہی چاہے تھا کہ جیسے ان کے ساتھ انہوں نے کیا ویسے ہی ایک اور بلڈی سویلین کے ساتھ ہو رہا ہے تو ایسے میں جیسے مملکت خدا داد پاکستان پر کوئی دشمن میلی آنکھ کی طرح دیکھے تو ساری اپوزیشن اور قوم اپنے آپسی اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر آ جاتے ہیں اور سب اکٹھے ہو جاتے ہیں ایسے ہی اگر جمہوریت پر ایک اور شب خون مارنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ایسے میں سب جمہوری لوگ اکٹھے ہو جاتے اور کہتے کہ ایک دفعہ پھر ووٹ کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے چاہے وہ چوری شدہ مینڈیٹ ہی ہو۔۔۔ ویسے سب کو علم ہے کے سارے مینڈیٹ چاہے بھاری مینڈیٹ ہوں چاہے آرو او کے ہوں یا آرٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے کے سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔
ایسے میں سب نام نہاد جمہوری طاقتوں کو چاہئے تھا کہ وہ گرتی ہوئی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو جاتے اور کہتے کے اب بس ووٹ کی عزت کا وعدہ کریں ہم سب اس کشتی میں سوار ہونے کو تیار ہیں لیکن چند دن قبل قائد حزب اختلاف کے کمرے میں ایک فو ن کال کا اس طرح تذکرہ ہو رہا تھا جیسے انہیں بہت بڑا خزانہ ملنے کی نوید سنا دی گئی ہے اور سب ایک دوسرے کو خوشی سے کہہ رہے تھے کہ اب پنڈی سے فون آگیا ہے اب دیکھو کہ اب یہ آج گئے کہ کل
ویسے کتنے شرم کی بات ہے کہ پنڈی سے ایک فون کال آنے پرسب شادیانے بجا رہے ہیں حالانکہ یہ beginning of the end نہیں یہ اس حکومت کاBeginning of the End of theCivillian Goverment کہا جانا ایسے ہی ہے جیسے جمہوری حکومتوں کی طرف آخری قدم بھی کہا جانا چاہئے
لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ جو خوشیاں منا رہے ہیں وہ جلد یا بدیر یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ جو 1988میں ہوا پھر 1990,1993,1997,1999,کے بعد جو 2017میں میاں نواز شریف کیوں نکالا تک جاری رہا اس کی اگلی قسط اب 2021میں دہرائی جا رہی ہے کہ جو بھی حد ادب گستاخی کرے گا اسے اسی طرح گھر بجھوا دیا جاے گا لگتا ہے یہ سیاستدان کبھی نہیں سمجھیں گے یہ بس ہمیں باری دے دیں سمجھیں گے یہ چارٹرڈ آف ڈیموکریسی کو باریوں تک ہی جمہوریت سمجھتے ہیں اسی لئے تو سب ذلیل ہوتے ہیں اگر اب بھی نہ سمجھے تو کبھی نہیں سمجھیں گے
لیکن ایک بات یاد رکھنا جو کچھ نواز شریف مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کی عزت کی بات کرتے تھے کپتان لندن میں نہیں اسی پارلیمنٹ میں کہہ سکتا ہے ور وہ لگ رہا ہے کہ یہ نہیں کہے گا کہ جناب سپیکر یہ ہیں وہ ذرائع اور نہ ہی وہ لندن میں گوجرانوالہ جیسے خطاب کی بات کرے گا وہ جاتے جاتے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہہ جاے گا جو کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا
ویسے جس طرح ایم کیو ایم نے بولنا شروع کیا ہے اور آج یا کل جو کچھ ق لیگ کہے گی اس کے بعد کپتان کی پارلیمنٹ میں تقریر بنتی ہے جس میں وہ اسمبلیاں توڑنے کا اعلان بھی کر سکتا ہے ور ممکنہ طور بہت سے رازوں سے پردہ بھی آٹھا سکتا ہے ایسے میں تو دوزشیزہ ہی بہادر نظر آتی ہے جو سرکس کے اند ر ہی سہی شیر کے منہ کے آگے گال تو کرتی ہے لیکن یہاں سب اس شیر کی جگہ لینے کی درپے ہیں کہ آسانی سے ہمیں اس دوشیزہ کی گال پر بوسہ لینا ہے ہمیں کرسی دے دی جاے بس ۔۔۔۔۔لیکن یہ this is the beginning of the end of the Democracy ہے
