7

پاکستان پر اگر کبھی حملہ ہوا تو میں اس کی حفاظت کے لیے جان نچھاور کر دونگا

لاہور (ویب ڈیسک) بہار کے دنوں میں گیارہ مارچ 1957ء کو صوبہ کرمان کے ایک گائوں میں قاسم سلیمانی ایک کسان کے ہاں پیدا ہوا، وہ بارہ سال کا تھا کہ گائوں چھوڑ کر شہر آ گیا، گائوں چھوڑنے کے لئے دل نہیں مانتا تھا مگر حالات دل کی کہاں مانتے ہیں

نامور کالم نگار مظہر برلاس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔سو حالات قاسم سلیمانی کو کرمان شہر میں لے آئے۔ وہ کچھ عرصہ ایک مستری کا شاگرد رہا پھر کرمان واٹر آرگنائزیشن میں کنٹریکٹر بن گیا۔ کام کاج سے فارغ ہوتا تو جم چلا جاتا اور راتوں کو امام خمینی ؒ کے خطابات سنتا۔ 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد قاسم سلیمانی پاسداران انقلاب کا حصہ بن گیا۔ ابتدا میں اس نے شمال مغربی ایران میں کرد علیحدگی پسندوں کا صفایا کیا۔ 80کی دہائی میں عراق کے خلاف جنگ میں اس نے 41ویں ڈویژن کی کمانڈ کی۔ انہوں نے عراقی فوج سے ایران کے کئی علاقے خالی کروائے۔ یوں پاسداران انقلاب

میں وہ تیزی سے نام بنانے والے کمانڈر بن گئے۔ 80کی دہائی میں قاسم سلیمانی پاکستانی جنرل اسلم بیگ سے بڑی عقیدت سے ملے۔ انہوں نے صدام حسین کو ہٹانے میں بھی کام دکھایا۔ وہ عراق اور شام میں داعش کی پسپائی کا باعث بھی بنے۔امریکی حکام جنرل قاسم سلیمانی سے بہت تنگ تھے کیونکہ وہ خطے میں بچھائی ہوئی امریکہ کی ہر بساط کو لپیٹ کر رکھ دیتے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی ایرانیوں میں ایک ہیرو کے طور پر جانے جاتے تھے، وہ بیرون ملک ایرانی دشمنوں سے لڑنے والے مشہور تھے۔ جنوری 2011ء میں ایرانی راہبر علی خامنہ

ای نے قاسم سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے انہیں زندہ شہید قرار دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے مشرق وسطیٰ میں ایک ماہر فوجی حکمت کار کے طور پر بہت نام کمایا۔پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ اکثر و بیشتر ایران سے باہر آس پاس کے ملکوں میں سفر پر رہتے تھے۔

شہادت سے پہلے تین بار 2006ء، 2012ء اور پھر 2015ء میں یہ افواہیں سامنے آئیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا گیا ہے۔ کم گو اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی کو قدامت پسند حلقے بہت پسند کرتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے وہ دوستوں سے یوں مخاطب ہوئے کہ ’’میں فرزند کربلا ہوں، شہادت میری آرزو ہے‘‘۔شہادت کی آرزو کرنے والے کو جمعہ تین جنوری کی صبح شہادت مل گئی۔ وہ بیروت میں حزب اللّٰہ کے سربراہ سید حسن نصر اللّٰہ سے مل کر بائی روڈ دمشق پہنچے،

دمشق سے عام پرواز پر بغداد پہنچے اور پھر بغداد ان کے لئے مقتل ثابت ہوا۔ قطر کے العدید ایئر بیس سے اڑایا گیا ’’ہیل فائر ننجا میزائل‘‘ ڈرون کی صورت میں ان کی گاڑی کو لگا۔ اس منصوبے کی نگرانی امریکی ریاست نیواڈا کے ایئر بیس سے کی گئی۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں کی کافی عرصے سے یہ خواہش تھی کہ وہ جنرل قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹا دیں کیونکہ قاسم سلیمانی گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ طلسماتی شخصیت کے مالک، اعلیٰ فوجی حکمت کار قاسم سلیمانی نے شیعہ سنی کے جھگڑے میں پڑے بغیر عراق، شام اور فلسطین جیسی غیر شیعہ

ریاستوں کا دفاع کیا، عراق، لبنان، شام، فلسطین اور یمن میں ملیشیائوں کو طاقتور بنایا، انہیں جنگی حکمت عملیاں سکھائیں۔ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ راجہ ناصر عباس بتاتے ہیں کہ ’’پاکستانی قیادت نے جب یہ کہا کہ ایران پر حملہ ہوا تو ہم غیر جانبدار رہیں گے، اس پر جنرل قاسم سلیمانی بولا کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو ہم اپنا خون دیں گے، پاکستان کیلئے شہید ہونا میرے لئے باعثِ افتخار ہے‘‘۔ بقول اقبال۔۔شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن۔۔نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔(ش س م)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں